Saat Pardon Mein By Hira Butt Articles
Best Readers Library presents a new Urdu Social Romantic Novel by Writer
Hira Butt is a new social writer. Her unique writing style must grab your attention
Best Readers Library give a platform for the new writers to write online and show their writing abilities and skills.
Hope you like this novel
If you like this Urdu Novel Please Comments Blow, We are waiting for your kind response
Thanks for your kind support
آج کل پاکستان میں عورتوں کی عزت کو پامال کیا جا رہا ہے۔ عورت نے چاہے شلوارقمیض پہنی ہے یا چوڑی دار پاجامہ پہنا ہے۔دوپٹہ گلے میں ڈالا ہے یا نہیں چاہے سر سے پاؤں تک چادر سے خود کو ڈھکا ہوا ہے۔ جس بھی حالت میں ہو وہ زیادتی کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ جانے ایسا وقت کب آۓ گا؟ جب عورتیں اپنے تحفظ کے لئے خود کوئی اقدام أٹھا سکے گی۔
جنسی جرائم اور گھریلو تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافے کے ساتھ خواتین کے لئے پاکستان دنیا کے چھٹے خطرناک ترین ملک کی حیثیت احتیار ہے۔
عورت جس بھی مذہب سے ہو۔ خوبصورت ہے یا نہیں ریپ ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔عورت چاہے پانچ یا سات سال کی سکول جانے والی بچی ہو ، اٹھارہ یا بیس سال کی بچی ہو یا قبر میں لپٹی ہو. عورت نے چاہے گلے میں ڈوپٹہ لیا ہے یا نہیں ' شلوار قمیض پہنی ہے یا دوسری طرز کا لباس پہنا ہے سر سے پاؤں تک چادر میں لپٹی ہے یا نہیں پھر بھی جنسی زیادتی کا شکار ہو جاتی ہے۔
آج کل 7 سے 9 سال کی بچیوں کو آج کل اغوا کر کے ان کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔ ان کے چہروں سے ان کی مسکراہٹ اور معصومیت کو چھین لینے کے بعد ان کو قتل کر دیتے ہے۔ ان کو قتل کرتے وقت ان کی ہاتھ کپکپتے نہیں؟ایسا کیسے کر لیتے ہیں لوگ؟جب بھی کسی بچی کے ساتھ زیادتی کی خبر سننے کوملے کے فلاح بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے دل خون کے آنسو روتا ہے۔
زیادتی کا شکار نا صرف بچے یا عورتیں ہوتی ہیں بلکہ خواجہ سرا افراد بھی اس زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اگر کوئی خواجہ سرا افراد کسی جگہ اپنی محنت کر کے مزدوری کر کے کمانا چاھتا ہے تو وہاں کے لوگ اس کو ہراساں کرتے رہتے ہیں اور پھر زیادتی کا شکار کر دیتے ہیں۔
پہلے ریپ کی شکایت کو ثابت کرنے کے عمل میں عورتوں کو جیل جانا پڑتا تھا اب ایسا نہیں ہوتا۔ 2016ء میں اس قانون میں ہونے والی ترامیم نے اس قانون کو اور مظبوط کیا ہے ۔ ان ترامیم سے عدالتی کارروائی کو خواتین کے لئے آسان اور تیز کرنے کا طریقہ وضع کیا گیا ہے۔ اس قانون میں اب زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو عدالتی کارروائی کے دوران تحفظ دینے کے لئے ان کے بیان کو ان کیمرہ ریکارڈ کروانے کا لیگل فریم ورک مہیا کیا گیا ۔ اسی طرح ریپ کاُ شکار ہونے والی خاتون کے پولیس میں بیان کے لئے ایک اور خاتون کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
قوانین کی موجودگی بھی ان جرائم کی شرح میں کوئی حقیقی کمی نہیں کر اسکی.اس ملک کا قانون اتنا سست روی کا شکار ہے کہ ملزمان کو پکڑنے کے لئے بہت سا وقت سرف کر دیتے ہیں لیکن ایسی سزا کا کیا فائدہ جس سے دوسرے ملزمان کچھ سبق حاصل نا کر سکیں۔1981ء جنرل ضیاءالحق کے دور میں ایک بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی اور اسے بعد میں قتل کر دیا گیا۔بعد میں ملزمان کو تلاش کر کے ان کو سر عام پھانسی دی گئی تھی اور الگلے دس سالوں بعد اس طرح کا کوئی بھی واقعہ نہیں ہوا تھا۔اس لئے حکومت کو چاہیے کے وہ زیادتی کرنے والے ملزم کو سخت سے سخت سزا دے تاکہ وہ سب کے لئے عبرت کا نشان بن سکیں ۔
اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے (آمین)
جنسی جرائم اور گھریلو تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافے کے ساتھ خواتین کے لئے پاکستان دنیا کے چھٹے خطرناک ترین ملک کی حیثیت احتیار ہے۔
عورت جس بھی مذہب سے ہو۔ خوبصورت ہے یا نہیں ریپ ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔عورت چاہے پانچ یا سات سال کی سکول جانے والی بچی ہو ، اٹھارہ یا بیس سال کی بچی ہو یا قبر میں لپٹی ہو. عورت نے چاہے گلے میں ڈوپٹہ لیا ہے یا نہیں ' شلوار قمیض پہنی ہے یا دوسری طرز کا لباس پہنا ہے سر سے پاؤں تک چادر میں لپٹی ہے یا نہیں پھر بھی جنسی زیادتی کا شکار ہو جاتی ہے۔
آج کل 7 سے 9 سال کی بچیوں کو آج کل اغوا کر کے ان کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔ ان کے چہروں سے ان کی مسکراہٹ اور معصومیت کو چھین لینے کے بعد ان کو قتل کر دیتے ہے۔ ان کو قتل کرتے وقت ان کی ہاتھ کپکپتے نہیں؟ایسا کیسے کر لیتے ہیں لوگ؟جب بھی کسی بچی کے ساتھ زیادتی کی خبر سننے کوملے کے فلاح بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے دل خون کے آنسو روتا ہے۔
زیادتی کا شکار نا صرف بچے یا عورتیں ہوتی ہیں بلکہ خواجہ سرا افراد بھی اس زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اگر کوئی خواجہ سرا افراد کسی جگہ اپنی محنت کر کے مزدوری کر کے کمانا چاھتا ہے تو وہاں کے لوگ اس کو ہراساں کرتے رہتے ہیں اور پھر زیادتی کا شکار کر دیتے ہیں۔
پہلے ریپ کی شکایت کو ثابت کرنے کے عمل میں عورتوں کو جیل جانا پڑتا تھا اب ایسا نہیں ہوتا۔ 2016ء میں اس قانون میں ہونے والی ترامیم نے اس قانون کو اور مظبوط کیا ہے ۔ ان ترامیم سے عدالتی کارروائی کو خواتین کے لئے آسان اور تیز کرنے کا طریقہ وضع کیا گیا ہے۔ اس قانون میں اب زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو عدالتی کارروائی کے دوران تحفظ دینے کے لئے ان کے بیان کو ان کیمرہ ریکارڈ کروانے کا لیگل فریم ورک مہیا کیا گیا ۔ اسی طرح ریپ کاُ شکار ہونے والی خاتون کے پولیس میں بیان کے لئے ایک اور خاتون کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
قوانین کی موجودگی بھی ان جرائم کی شرح میں کوئی حقیقی کمی نہیں کر اسکی.اس ملک کا قانون اتنا سست روی کا شکار ہے کہ ملزمان کو پکڑنے کے لئے بہت سا وقت سرف کر دیتے ہیں لیکن ایسی سزا کا کیا فائدہ جس سے دوسرے ملزمان کچھ سبق حاصل نا کر سکیں۔1981ء جنرل ضیاءالحق کے دور میں ایک بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی اور اسے بعد میں قتل کر دیا گیا۔بعد میں ملزمان کو تلاش کر کے ان کو سر عام پھانسی دی گئی تھی اور الگلے دس سالوں بعد اس طرح کا کوئی بھی واقعہ نہیں ہوا تھا۔اس لئے حکومت کو چاہیے کے وہ زیادتی کرنے والے ملزم کو سخت سے سخت سزا دے تاکہ وہ سب کے لئے عبرت کا نشان بن سکیں ۔
اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے (آمین)
آپکی دعاؤں کی طلب گار
حرا بٹ
Post a Comment
Post a Comment